Monday 19 June 2023

انسانی معاشرہ اور تعلیم کی ضرورت


مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی دہلی 

 اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات بناکر بھیجا  پھر اس کو دنیا اور آخرت کی عظیم نعمت  کے حصول کی تاکید کی۔  اللہ نے انہی انسانوں میں سے  اپنے منتخب بندوں کو  علم کی دولت  سے مالامال کرکے بھیجا  اور اہل بصیرت  ان  افراد  کو (جنہیں  اللہ نے  یہ عظیم دولت عطا کر کے  دنیا میں بھیجتا ) ہادی ،  راہنما  اور صاحبان علم کہتے ہیں۔  تعلیم ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے جو انسان کو حیوان سے ممتاز بناتی ہے اگرکسی معاشرے میں تعلیمی فقدان ہے تو وہ حیوان سے بدتر ہے کیونکہ تعلیم  فرد ،  قوم،  معاشرے ،  شہر،  ملک اور اہل دنیا کی ترقی کی ضامن ہوتی ہے۔ یہی تعلیم قوموں کی ترقی اور زوال کا سبب بنتی ہے تعلیم حاصل کرنے کا مطلب صرف اسکول ، کالج اور یونیورسٹی سے کسی ڈگری کا حاصل کرنا نہیں بلکہ اسکے ساتھ  تمیز اور تہذیب سیکھنا بھی شامل ہے تاکہ انسان اپنی معاشرتی روایات اور  اقدار کا خیال رکھ سکے۔ تعلیم وہ سرمایہ ہے  جس کے ہوتے ہوئے انسان اللہ کی قربت اور دنیا میں کامیابی کو حاصل کرلیتا ہے۔   
حصول تعلیم کو  تمام  مذاہب  اہمیت دیتے ہیں مگر دین  اسلام حصول تعلیم کو  واجب اور ضروری جانتا ہے۔ آج کے اس پر آشوب  دور میں کمپیوٹر، ایٹمی ترقی، سائنس اور صنعتی ترقیوں کا  بول بالا ہے ۔ اسکولوں میں مختلف جدید علوم  جن میں ٹیکنیکل،  وکالت،  طبابت،  جغرافیا،  کیمیا   وغیرہ کا حاصل کرنا لازمی تقاضہ بن چکا ہے اور بننا بھی چاہیے کیونکہ انسانی معاشروں کی ضرورت ہے اور یہ ہی علوم خدا پرستی،  عبادت،  محبت،  خلوص،  ایثار،  خدمت خلق،  وفاداری اور ہمدردی کے جذبات  کے ساتھ ہوں تو دینی علم کہلاتے ہیں چنانچہ تعلیم یافہ افراد کی خلوص نیت،  خدمت خلق  اور اخلاق کی وجہ سے نیک اور صالح معاشرے تشکیل پاتے ہیں۔    
تعلیم کا اولین مقصد انسان کی فکری، جسمانی او روحانی صلاحیتوں کی نشونما کرنا ہوتاہے تعلیمی حصول کیلئے قابل اساتذہ بے حد ضروری ہیں جوبچوں کو اعلی تعلیم کے حصول میں مدد  فراہم کرتے ہیں استاد وہ نہیں جو محض دو  چار کتابیں پڑھا کر اور کچھ کلاسسز لے کر اپنے فرائض سے مبرا ہوجائیں بلکہ استاد  وہ ہے جو طالب اور  طالبات کی خفیہ صلاحیتوں کو بیدار کرتا ہے اور اپنے شاگردوں کو شعور و  ادراک ،  علم و آگہی  نیز فکر  و  نظر کی دولت سے  مالا مال کرتا ہے جن اساتذہ نے اپنی اس ذمہ داری کو بہتر طریقے سے پورا کیا ،ان کے شاگرد آخری سانس تک ان کے احسان مند رہتے ہیں۔  
جہاں اساتذہ کی اتنی بڑی ذمہ داری ہوتی ہے وہیں قوم و ملت کی بھی اس سے بڑی ذمہ داری ہوتی ہے، قوموں کے ہرفرد کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے  اپنے معاشرے کو اچھا بنائیں اور یہ عظیم کام  بغیر علم کے ممکن ہی نہیں ہے اگر معاشرے خراب ہیں تو سمجھ لیجیے تعلیم کا فقدان ہے لہذا اس فقدانی کا علاج بہت ضروری  ہے در حقیقت قوم کے با اثر و رسوخ افراد  نے اس مسئلہ کے بارے میں سنجیدگی سے سوچا  ہی نہیں ہے اور اگر سوچا  بھی ہے تو ان سے باصلاحیت افراد جوڑے نہیں ہیں۔  
یاد رکھیے اسلامی تاریخ  اس بات کی شاہد ہے کہ مسلمانوں نے تعلیم و تربیت جیسی دولت کی مدد سے  دین و دنیا میں سربلندی اور ترقی حاصل کی لیکن جب بھی مسلمانوں نے علم اور تعلیم سے دوری یا تعلیم کے مواقعوں سے خود کو محروم کیا  یا تو  وہ غلام بنالیئے گئے یابحیثیت قوم اپنی شناخت کھو بیٹھے۔   
ہندوستان میں بھی قوم کی حالت کچھ اسی طرح دکھائی دے رہی ہے اگر یہ کہا جائے کہ قوم اپنی شناخت کھو بیٹھی ہے تو بیجا نہ ہوگا کیونکہ شیعہ قوم علم سے پہچانی جاتی تھی اگر ماضی میں علم کی بات ہوتی تھی تو کہاجاتا تھا سادات اور اہلبیت علیہم السلام کے پیروکار عالم ہوتے ہیں مگر آج ایسا نہیں ہے کیونکہ شیعہ قوم تعلیم سے دوری کی وجہ سے اپنی شناخت کھوبیٹھی ہے۔ یہ شناخت کسی ایک کی سعی و تلاش سے واپس نہیں آئے گی بلکہ قوم کے ہرفرد کو اس مشن میں حصہ داری کرنی ہوگی اور جب کسی مشن کا آغاز ہوتا ہے تو چند ہی لوگ اس کی ابتدا کرتے ہیں ۔  چنانچہ  ملک بھر میں سمینار اور کانفرنس  برگزار ہو تے رہتے ہیں جن میں زیادہ تر قوم و ملت کے مستقبل کی کوئی بات نہیں ہوتی اور اگر ہوتی بھی ہے تو اس پر عمل نہیں ہوتا اور یہ سب اسلیے ہے کہ سمینار  یا کانفرنس کے برگزار کرنے کا مقصد ہی شہرت طلبی یا اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے  چنانچہ وہ ان کی منشاء کے مطابق مل جاتی ہے۔ میں اپنی قوم سے درخواست گزار ہوں کہ تعلیم کے مسئلہ کی طرف متوجہ ہوں اور قوم  و ملت کے بچوں کے مستقبل  پر  غور  فرمائیں ۔ اس پر آشوب ماحول میں قوم کے ہرفرد کا حقیقی وظیفہ یہ ہے کہ وہ تعلیم اور اقتصاد پر توجہ دے کر اپنی  شناخت کو محفوظ کر ے  اور یہ کام  اس وقت ممکن ہوگا جب اہل بصیرت اس امر کے لئے حساس دل کے ساتھ  آگے آئیں اور قوم کی ڈوبتی ہوئی نبضیں اوپر لائیں۔ 
 میں یہ نہیں کہتا کہ لوگ کام نہیں کر رہے کام ہورہا ہے جو مختلف اداروں اور افراد کی صورت میں سامنے آیا اور آتارہے گا۔ مگر اپنے اپنے معاشرے،  محلوں  اور شہروں کا  سنجیدگی  سے تجزیہ کریں کہ ہمارے شہر اور محلے میں تمام وسائل علمی اور زیستی مہیا ہیں یا ہمیں کسی دوسری جگہ کا سفر کرنا پڑ رہا ہے اگر علاج کی ضرورت ہے تو ہم نے اپنے بچوں کو  میڈیکل سائنس کی تعلیم دی اور ہوسپیٹل بناکر  علاج کا ساز و سامان فراہم کیا ہے یا نہیں۔ ہم نے کبھی معاشرے کے غریب افراد کی تعلیم، علاج اور اقتصادی حالت کے سدھار کی فکر کی؟ہرگز نہیں۔  اگر کبھی سوچا بھی تو اپنی درآمد ، شہرت  یا قوت کے مظاہرے کے لئے کسی شخصیت  یا کسی دوسری بات کو عنوان بنا کر سمینار اور کانفرنس  کے بارے میں سوچا جس کا نتیجہ پانی کے بلبلے کے مانند ہے اور اس سے قوم و ملت کو کوئی نفع نہیں ہے لہذا صاحبان عقل کے لئے غور فکر کا مقام ہے کہ وہ  اپنے اپنے حلقوں کو تعلیم کے مواقع فراہم کرائیں تاکہ جہالت جیسے وائرس کے سبب غربت، ظلم و جور، فتنہ و فساد اور بے انصافی جیسے امراج کا وجود میں آ نے سے پہلے ہی سدباب ہوسکے۔آخر میں، میں اللہ کی بارگاہ میں دعا گو ہوں کہ پالنے والے انسانی معاشروں کی اصلاح فرما اور قوموں کو  اپنے اپنے معاشرے کو اچھا بنانے کی توفیق عطا فر ما  آمین۔ 
والسلام علی من اتبع الھدی
سید رضی زیدی پھندیڑوی

Monday 13 March 2023

شاعر، ادیب و مداح اہلبیت علھم السلام جناب الحاج ذولفقار باقر پھندیروی


 جناب سید ذوالفقار باقر  فرزند سید صولت حسین زیدی مرحوم 25 اگوست1970 در شھرک پھندیری سادات

 استان مرادآباد (فعلی امروھا) ایالت آتراپردیش دیدہ بہ جھان گشود۔ تحصیلات ابتدایی را در دبستان دولتی بنام کسان جونئر ھائی اسکول فرا گرفت۔ نیز تحصیلات احکام۔ قرآن مجید زبان اردو را در مدرسہ مصباح العلم پھندیری سادات از اساتید مھربان فرا گرفت۔ بعد از تکمیل دروس ابتدایی  در سال 1980م عازم نوگاواں سادات شد و برای تحصیلات علوم دینی وارد مدرسہ باب العلم نوگاواں سادات شد۔ ایشان در این مدرسہ تا سال 1987م از اساتید جید علوم مختلف را فراگرفت و مدرک منشی، مولوی و عالم را با نمبرات خوب اخذ نمود۔
آقای باقر بعد از اخذ مدرک عالم تصمیم گرفت کہ ما بقیہ دروس حوزوی را در مدرسہ امام محمد باقر ( نجفی ھاؤس) بگذرانند لذ عازم ممبئی شد ولی پزیرش نشد و بہ وطن خویش برگشت و تصمیمی کہ برای تکمیل دروس حوزہ وی را گرفتہ بود منصرف شد و بعد از چند ماہ ھمراہ پدرش کہ در سفارت کویت در دھلی کارمند بودند آمد۔
ایشان در دھلی دروس غیر حوزہ وی را ادامہ داد و در دوران تحصیلات  18 زانویہ 1989م در سفارت کویت بعنون کارمند منتخب شد و ھمزمان ھم تحصیلات خویش را ادامہ داد و ھم در سفارت کار می کرد۔ ایشان  دورہ کارشناسی و کارشناسی ارشد را در جامعہ ملیہ اسلامیہ دھلی گذراند و مدرک کارشناسی و کارشناسی ارشد را در سال 2001م اخذ نمود۔ ایشان ھمزمان تحصیلات کارشناسی و ارشد در امتحانات ادیب کامل و معلم شرکت نمود و با نمرات خوب مدرک معلم را گرفت۔
ایشان شاعر توانا می باشند۔ ایشان در اصناف سخن: حمد، نعت، منقبت،نظم، غزل، نوحے، رباعیات، قطعات و قطعات تاریخی طبع آزمایی نمود۔
باقر پھندیروی در سال 1997م آغاز شاعری را از غزل کرد و  استادش پرفسور خالد محمود اصلاح می نمود۔ وقتیکہ کہ در غزل گویی مھارت پیدا کرد و در شوق منقبت از استاذالشعرا آقای رضا امروھوی کسب فیض نمود و خودش را در ادبیات بہ کمال رساند۔ ایشان برای غزل سرودن بہ رادیو و تلویزیون ھند دعوت می شدند و گاہ بگاہ می رفتند و اشعاری می سرودن۔ ایشان سالھا بہ خانہ فرھنگ جمھوری اسلامی ایران در دھلی برای شرکت و سرودن اشعار در برنامہ ھای ادبی انجمن بی دل و جشن ھای مختلف می رفت۔ ھمیشہ منقبت و غزلھای ایشان در مجلہ ھا و روزنامہ ھا چاپ می شد۔ باقر پھندیروی برای مستفیض شدن مؤمنین مجموعات اشعار خویش(اشکوں کے چراغ، آئینہ عقیدت و انمول دولت) بہ چاپ رساند۔ از مجموعات اشعاری ایشان مؤمنین مستفیض می شوند۔ ما در ذیل نمونہ ھای نعت و غزل ایشان را میاریم تا توانایی اشعار گویی و فکرش احصاس کرد۔  
 
نعت
آپ کا چاند خور آپ کا ہے                              ذرے ذرے میں نور آپ کا ہے۔
بھیک لفظوں کی عطا کر اے خداے مرتضیٰ         منقبت لکھنی ہے اب مجھ کو براے مرتضیٰ۔
شعور و فکر و عمل عزم و آگہی کے لیے                  غم حسین ضروری ہے زندگی کے لیے۔
۔باقر حیات دونوں جہاں کی نصیب ہو                گر فاطمہ یہ کہدیں کہ مصرع قبول ہے۔۔
غزل
میں نے مانا تھا بس کہا دل کا                              کیا کہوں حال کیا ہوا دل کا۔
و
صدا  ان کو لگا کر دیکھتے ہیں                              وہ روٹھے ہیں منا کر دیکھتے ہیں
ہیں اپنے منتظر کے منتظر ہم                             اسے پلکیں بچھاکر دیکھتے ہیں
یہ سوچا ہے تری آنکھوں کے رستے                    ترے دل میں سما کر دیکھتے ہیں
بدل جاتے ہیں گلشن کے نظارے                      وہ جب  نظریں   اٹھا کر دیکھتے ہیں
وہاں ملتی ہے جاکر سرفرازی                            چلو سجدے میں جا کر دیکھتے ہیں
چراتا ہے نظر جو ہم سے مل کر                          اسی سے دل لگا کر دیکھتے ہیں
جہاں میں امن کی خواہش ہے باقر                    کبوتر پھر اڑا کر دیکھتے ہیں
ایشان ھمیشہ ھمنشینان علماء، فضلاء، دانشوران و اھل علم و فضل ھستند ھرجایی کہ برای سرودن اشعار مدعو می شوند اول وضعیت زمان و مکان و تمایل سامعین جایزہ می گیرند و بعد شروع بہ سردن می کنند اگر فرصت کم ھست دو سہ تا بیت می خونند و التماس دعا می گویند۔
جناب باقر تاکنون در سفارت کویت کارمند ھستند و زیارت خانہ خدا و چندین مرتبہ بہ زیارات عتبات عالیات مشرف شدند۔ فی الحال ھمراہ خانوادہ در ترلوکپوری دھلی در خانہ پدر قیام پزیر ھستند۔ من از خداوند متعال برای ایشان توفیقات بیشتر مسئلت دارم۔ آمین والحمدللہ رب العالمین۔
 لسلام سید رضی زیدی نمبردار 

Wednesday 23 February 2022

حضرت علی علیہ السلام کا وہ قول جو آتی اور جاتی سردی میں کثرت سے بیان ہوتا ہے ۔ نقصان دہ اور مفید سردی کے متعلق:

حضرت علی  علیہ السلام کا وہ قول جو آتی اور جاتی سردی میں کثرت سے بیان ہوتا ہے ۔ نقصان دہ اور مفید سردی کے متعلق:

 از قلم: مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی دہلی

آتی اور جاتی ہوئی سردی کے موسم میں لوگ  حضرت علی علیہ السلام  کے قول کو دو طرح سے بیان کرتے ہیں ۔ قول اول:   یہ کہ آتی اور جاتی ہوئی سردی سے بچنے کے دستور کو سمجھتے ہیں اور لوگوں کو اس پر عمل کرنے کی ہدایت کرتے ہیں قول دوم:  آتی ہوئی سردی سے پرہیز اور جاتی ہوئی کے اسقبال کو بیان کرتے ہیں  ۔ میں نےاس بات کو اپنے لیے ضروری سمجھا کہ حضرت کے اس قول کا ترجمہ وضاحت سے بیان کروں تاکہ درست مطلب  واضح ہوجائے۔

امام علی علیہ السلام اپنے اس حکیمانہ کلام میں ایک اہم طبی اور کارساز عمل کو بیان فرما رہے ہیں جس کی رعایت سے انسان بہت سی  بیماریوں سےمحفوظ رہ سکتا اور جسم انسانی کی نشونما میں مددملتی ہے۔قَالَ (علیه السلام): تَوَقَّوُا الْبَرْدَ فِي أَوَّلِهِ وَ تَلَقَّوْهُ فِي آخِرِهِ، فَإِنَّهُ يَفْعَلُ فِي الْأَبْدَانِ كَفِعْلِهِ فِي الْأَشْجَارِ، أَوَّلُهُ يُحْرِقُ وَ آخِرُهُ يُورِقُ.(نہج البلاغہ، حکمت 128) آتی ہوئی سردی سے احتیاط کرو اور جاتی ہوئی سردی کاخیر مقدم کر و کیونکہ سردی جسموں میں وہی اثر کرتی ہے جو درختو ں میں کرتی ہے کہ ابتدا ئی سردی درختوں کو جھلسا دیتی ہےاور آخرمیں سرسبز و شاداب کردیتی ہے. نباتا ت پر تبدیلی موسم کا اثر ہوتا ہے چنانچہ موسم خزاں میں برودت و پیوست کے غالب آنے سے پتے مرجھا جاتے ہیں روح نباتاتی افسردہ ہو جاتی ہےچمن کی حسن و تازگی مٹ جاتی ہے اور سبزہ زاروں پر موت کی سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور موسم بہار ان کے لیے زندگی کا پیغام لے کر آتا ہے او ربار آور ہواؤں کے چلنے سے پتے اور شگوفے پھوٹنے لگتے ہیں اور شجر سر سبز و شاداب اور دشت و صحرا سبزہ پوش ہوجاتے ہیں . اسی طرح ابدان انسانی ہیں جن پر درختوں اور پودوں کی مانند موسم تاثیر گزار ہوتا ہے۔  بوعلی سینا نے اپنی طبی کتاب القانون میں اسی نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئےفرمایا: ابدان جاتی ہوئی سردی میں وہ احساس نہیں کرتے جو آتی ہوئی سردی میں کرتے ہیں کیونکہ  بہار کےموسم کی سردی میں ابدان ٹھنڈ والی سردی کے عادی ہوتے ہیں جس کی وجہ سے بہار کی سردی ابدان کو نقصان نہیں پہنچاپاتی مگر آتی ہوئی سردی ابدان کو بہت زیادہ نقصان پہنچا دیتی ہے کیونکہ ابدان گرمی کے عادی ہوتے ہیں جس کی وجہ سے جسم سردی کو برادشت نہیں کرپاتے اور افسردہ ہوجاتے ہیں۔ (کتاب قانون، ج 1، ص 83) البتہ خداوند کریم فصول کو تدریجی داخل کرتا ہے تاکہ فصول کے ورود کے نقصانات کم ہوں اور اجسام سردی کی عادت کرلیں۔

 اسی طرح کا  حکمت آمیز کلام رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  سے دوسری عبارت  میں نقل ہوا ہے جو اس قول کی تائید و تاکید فرماتا ہے۔  آپ نے فرمایا: اِغْتَنِمُوا بَرْدَ الرَّبیعَ فَإنَّهُ یَفْعَلُ بِأبْدانِکُمْ ما یَفْعَلُ بِأشْجارِکُمْ وَاجْتَنِبُوا بَرْدَ الْخَریفِ فَإنَّهُ یَفْعَلُ بِأبْدانِکُمْ ما یَفْعَلُ بِأشْجارِکُمْ۔(بحارالانوار، ج 59، ص 271، ح 69) بہار کی سردی کو غنیمت جانیں کیونکہ ابدان میں وہ ہی کام کرتی ہے جو درختوں میں کرتی ہے۔ اور آتی ہوئی سردی سے پرہیز کریں کیونکہ ابدان میں وہ ہی اثر کرتی ہے جو درختوں میں تاثیر گذار ہوتی ہے۔

 ماہرین طب بھی اسی مطلب کو اس عبارت میں یوں سمجھتے ہیں: موسم خزاں میں سردی سے بچنا اس لیے ضروری ہے کہ موسم کی تبدیلی سے مزاج میں انحراف پیدا ہوجاتا ہے اور نزلہ ،  زکام اور کھانسی وغیرہ کی شکایت پیدا ہوجاتی ہے .وجہ یہ ہوتی ہے کہ بد ن گرمی کے عادی ہوچکے ہوتے ہیں کہ ناگا ہ سردی سے دوچار ہونا پڑتا ہے جس سے دماغ کے مسامات سکڑجاتے ہیں ،اور مزاج میں برودت و پیوست بڑھ جاتی ہے چنانچہ گرم پانی سے غسل کرنے کے بعد فورا ًٹھنڈے پانی سے نہانا اسی لیے مضر ہے کہ گرم پانی سے مسامات کھل چکے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ پانی کے اثرات کو فوراًقبول کرلیتے ہیں اور نتیجہ میں حرارت غریزی کو نقصان پہنچتا ہے البتہ موسم بہار میں سردی سے بچاؤ کی ضرورت نہیں ہوتی اور نہ وہ صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے کیونکہ پہلے ہی سے سردی کے عادی ہوچکے ہوتے ہیں اس لیے بہار کی معتدل سردی بدن پر ناخوشگوار اثرنہیں ڈالتی بلکہ سردی کا زور ٹوٹنے سے بدن میں حرارت و رطوبت بڑھ جاتی ہے جس سے نشوونما میں قوت آتی ہے ،حرارت غزیری ابھرتی ہے اور جسم میں نمو طبیعت میں شگفتگی اور روح میں بالیدگی پیدا ہوتی ہے .ساری باتوں کا خلاصہ یہ ہوا کہ آتی ہوئی ٹھنڈ سے پرہیز کریں اور جاتی ہوئی سردی سے پرہیز اتنا ضروری نہیں ہے جتنا آتی ہوئی سے ہے کیونکہ جاتی ہوئی ابدان کے لئے مفید ہے پس قول اول: یہ کہ آتی اور جاتی ہوئی سردی سے بچنا چاہیے درست نہیں ہے بلکہ فقط آنے والی سے پرہیز کا دستور ہے۔

                                                                                           والسلام  سید رضی زیدی پھندیڑوی دہلی



 

Monday 9 August 2021

عزاداری اور شہادت امام حسین علیہ السلام

 

مولانا رضی زیدی پھندیڑوی دہلی

حوزہ/ شہیدوں کا غم اور خاص طور پر سید الشہدا حضرت امام حسینؑ کا غم، کربلا کے عظیم واقعہ کو زندہ وجاوید بنانے کا ذریعہ ہے اس غم سے عزاداروں اور حق کے پیشواؤں کے درمیان باطنی بندھن قائم ہوتاہے اور ساتھ ہی لوگوں میں ظلم و ستم سے مقابلے کی روح زندہ ہوتی ہے۔

تحریر: مولانا رضی زیدی پھندیڑوی دہلی

   عراق کے کربلا،نینوا نامی صحرا میں حبیب خدا،  رحمۃ العالمین  حضرت محمد مصطفٰیؐ کے نواسے حضرت امام حسین علیہ السلام اور  ان کے باوفا ( 72) ساتھیوں کی عظیم شہادت اسلام کی تاریخ کا بے مثال معرکہ ہے۔جس میں انہوں نے  راہِ خدا و اسلام، راہِ حق و عدالت اور جہالت و گمراہی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی انسانیت کو آزاد کرنے کے لئے سنہ ٦١ہجری میں جامِ شہادت نوش فرمایا۔اسی لیے حضرت امام حسینؑ نہ صرف مسلمانوں کے دلوں میں مقام و منزلت رکھتے ہیں بلکہ تما م مذاہب اسلامی اور غیر اسلامی آپ کو ایک مرد آزاد کے عنوان سے پہچانتے ہیں۔ آپ کی یاد میں محرم کاچاند نمودار ہوتے ہی عزاداروں کی بستیوں میں غم کا ماحول چھاجاتاہے، عورتیں اپنا  زیور اتار کر غم کا حلیہ اختیار کرلیتی ہیں اورجگہ جگہ عزاداری کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ ہر طرف سے نوحہ ،مرثیہ اورمجلس کی صدا ئیں آنے لگتی ہیں۔
برصغیر میں شہدائے کربلا کی عزاداری بہت قدیمی ہے۔ عزاداری حضرت امام حسین ؑ منانے کا سلسلہ ملتان میں شروع ہوا جب وہاں تیسری صدی ہجری کے اوائل میں قرامطہ اسماعیلیوں کی حکومت قائم ہوئی اور یہاں مصر کے فاطمی خلفاء کا خطبہ پڑھا جانے لگا۔ ابن تعزی کے مطابق مصر اور شام میں فاطمیوں کی حکومت کے قیام کے بعد 366ھ/978ء میں عزاداری سید الشہداء برپا ہونا شروع ہوئی ۔ محمود غزنوی کے حملے کے نتیجے میں ملتان میں اسماعیلی حکومت کے خاتمے اور اسماعیلی پیشواؤں کے صوفیا کی شکل اختیار کر لینے کے بعد صوفیوں کی درگاہوں اور سنی بادشاہوں کے قلعوں پر عشرہ محرم کے دوران عزاداری تذکرہ کے نام سے برپا کی جاتی رہی ہے۔ جنوبی ہندوستان میں یہ روایت دکن کی شیعہ ریاستوں میں زیادہ منظم رہی اور برصغیر کا پہلا امام بارگاہ (عاشور خانہ) بھی وہیں قائم ہوا۔
امام حسین علیہ السلام کے قیام کا مقصد، اسلامی معاشرے کے درپیش خطروں کو دور کرنا تھا ۔ روح کی بالیدگی اور معنویت کی طرف رجحان کربلا کا وہ عظیم سرمایہ ہے جو کسی اور کے پاس نہیں اسی لئے ہماری تہذیب میں اس غم کی بہت قیمت ہے اور ہماری ثقافت ميں امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب و انصار کی مجالس اور عزاداری کا انعقاد، عبادت ہے ۔ کیونکہ عزاداری، معنویت میں فروغ کاباعث ہوتی ہے اور انسان کو انسانیت کے اعلیٰ ترین مدارج تک پہنچانے میں مدد کرتی ہے۔ امام حسین علیہ السلام پر گریہ و زاری اور حزن واندوہ، باطنی تغیر وجود ميں آنے اور اس کے ساتھ ہی انسان کے روحانی کمال کا باعث ہوتی ہے ۔ اس سے انسان میں تقویٰ اور خدا سے نزدیک کرنے کے مقدمات فراہم ہوتے ہيں۔ اسی طرح عزاداربھی اس مظلوم کے ساتھ ہیں جو عقیدے کی راہ میں موت کو سعادت اور ستمگر کے سامنے تسلیم ہو جانے کو باعث ننگ و عار قرار دیتے ہیں۔
امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا غم ،وہ غم ہے جو ظاہر و باطن میں انسان کے وجود میں ایک ایسا انقلاب پربا کر دیتا ہے کہ انسان بغیر قدروں کے جینے کو موت سے تعبیر کرتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ آج ہر مکتب خیال کے لوگ اس کے ساتھ جڑے ہوئےنظر آتے ہیں ۔
اس غم کی عمارت ان انسانی بنیادوں پر قائم ہے کہ جہاں مذہبی، نسلی اور لسانی تنگ نظری کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا بلکہ ہرفرد کے دل کی آوا ز ہے اسی لئے دنیا کی اہم انقلابی تحریکوں میں اس کی صدائے بازگشت سنائی دیتی ہے ۔جس وقت ہندوستان غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا تومہاتما گاندھی نے کہا تھا : ” حسینی اصول پر عمل کرکے انسان نجات حاصل کرسکتا ہے"۔ پنڈت نہرو کہتے ہیں” امام حسین (ع) کی شہادت میں ایک عالمگیر پیغام ہے" ۔ ” ہیروز ورشپ ” کے مصنف کارلائل نے کہاتھا کہ ” شہادت حسینؑ کے واقعہ پر جس قدر غور و فکر کی جائے گی اسی قدر اس کے اعلیٰ مطالب روشنی میں آتے جائیں گے"۔بھارت کے سب سے پہلےصدر ڈاکٹر راجندر پرساد بیدی(۱۸۸۴-۱۹۶۳ء) نے کہا کہ امام حسینؑ کی قربانی کسی ایک ریاست یا قوم تک محدود نہیں بلکہ یہ بنی نوع انسان کی عظیم میراث ہے"۔ بنگال کے معروف ادیب رابندر ناتھ ٹیگور(۱۸۶۱ءتا۱۹۴۱ء)نے کہا: "سچ اور انصاف کو زندہ رکھنے کے لئے فوجوں اور ہتھیاروں کی ضرورت نہیں، قربانیاں دے کر بھی فتح حاصل کی جا سکتی ہے، جیسے امام حسین ؑنے کربلا میں قربانی دی؛ بلاشبہ امام حسین انسانیت کے لیڈر ہیں"۔
عزاداری کامطلب،ایک عظیم انقلاب برپا کرنے والے مظلوم کے ساتھ جذبات کے بندھن کو مضبوط کرنا اور ستمگرو ظالم کےخلاف احتجاج کرناہے ۔ شہدا پر گریہ و عزاداری ان کے ساتھ کربلا کےمیدان ميں شرکت کے مترادف ہے اس بناء پر مجالس اور جلوسوں ميں شرکت کرنے والوں میں جو معنوی تبدیلی رونما ہوتی ہے اس سے سماجی تبدیلیوں کے لئے حالات سازگار ہوتے ہیں اور در حقیقت امام حسین علیہ السلام کے اہداف و مقاصد کے تحفظ کے لئے حالات فراہم ہوتے ہیں ۔ شہیدوں کا غم اور خاص طور پر سید الشہدا حضرت امام حسینؑ  کا غم ، کربلا کے عظیم واقعہ کو زندہ وجاوید بنانے کا ذریعہ ہے اس غم سے عزاداروں اور حق کے پیشواؤں کے درمیان باطنی بندھن قائم ہوتاہے اور ساتھ ہی لوگوں میں ظلم و ستم سے مقابلے کی روح زندہ ہوتی ہے۔پروردگار سے دعا ہے: پالنے والے بنی آدم  کی ہدایت اور ہمیشہ حق کا ساتھ دینے کی توفیق عطا فرما آمین والحمدللہ رب العالمین۔ 

अज़ादारी और शहादते इमामे हुसैन (अ.स.)

 

मौलाना रज़ी ज़ैदी

हौज़ा / शहीदों का ग़म और विशेष रूप से सैयदुश्शोहदा इमाम हुसैन (अ.स.) का ग़म कर्बाल के वाक़ेए को जिंदा ओ जावेद बनाने का ज़रिया है। इस ग़म से अज़ादारो और हक़ के पेशवाओ के दरमियान बातीनी बंधन क़ायम होता है और साथ ही लोगो मे ज़ुल्म ओ सितम से मुक़ाबले की रूह ज़िंदा होती है।

मौलाना रज़ी जै़दी फंदेडवी दिल्ली द्वारा लिखित

हौज़ा न्यूज़ एजेंसी। 61 हिजरी मे इराक के कर्बला, नैनवा नामी सहरा मे हबीबे ख़ुदा, रहमतुल लिल्आलामीन हज़रत मुहम्मद मुस्तफा (स.अ.व.व.) के नवासे इमाम हुसैन (अ.स.) और उनके वफादार (72) साथियों की अज़ीम शहादत इस्लाम के इतिहास में एक अभूतपूर्व मारका है। जिसमे उन्होने राहे खुदा, इस्लाम, राहे हक़ ओ अदालत और जहालत, गुराही की ज़ंजीरो मे जकड़ी हुई इंसानियत को आज़ाद करने के लिए जामे शहादत नोश फ़रमाया। इसीलिए इमाम हुसैन (अ.स.) न केवल मुस्लमानो के दिलो मे मक़ाम ओ मंज़िलत रखते है बल्कि सभी मुस्लिम और गैर स्लिम आपको एक स्वतंत्र व्यक्ति के रूप में पहचानते हैं। आपकी याद में मुहर्रम का चांद दिखाई देते ही अज़ादारी मनाने वाली बस्तियों में मातम का माहौल हो जाता है। हर तरफ से मातम, मातम और मजलिसो की आवाजें आने लगती हैं।

उपमहाद्वीप में कर्बला के शहीदों की अज़ादारी बहुत पुरानी है। इमाम हुसैन (अ.स.) की अज़ादारी मनाने का सिलसिला मुल्तान में शुरू हुआ जब वहा तीसरी सदी हिजरी के शुरूआत मे क़रामता इस्माईलीयो की सरकार बनी और यहां मिस्र  के फातेमी खलीफाओं का खुत्बा पढ़ा जाने लगा। इब्न ताज़ी के अनुसार, मिस्र और सीरिया में फातेमी शासन की स्थापना के बाद 366हिजरी / 978 ई. में , शहीदों की अज़ादारी शुरू हुई। महमूद गजनवी के आक्रमण और इस्माइली नेताओं के सूफियों में रूपांतरण के परिणामस्वरूप मुल्तान में इस्माईली सरकार को उखाड़ फेंकने के बाद, मुहर्रम की १० वीं के दौरान सूफी दरगाहो और सुन्नी राजाओं के किलों मे अज़ादारी मनाई जाने लगी। दक्षिण भारत में यह परंपरा दक्कन के शिया राज्यों में अधिक संगठित थी और उपमहाद्वीप का पहला इमामबाड़ा (अशूरा खाना) भी वहीं स्थापित किया गया था।

इमाम हुसैन (अ.स.) के क़याम का उद्देश्य इस्लामी समाज के सामने आने वाले खतरों को दूर करना था। आत्मा की परिपक्वता और आध्यात्मिकता की ओर झुकाव कर्बला की महान संपत्ति है जो किसी और के पास नहीं है, इसलिए यह दुःख हमारी संस्कृति में इमाम हुसैन (अ.स.) और उनके साथियों और अंसार की मजलिस और अज़ादारी में बहुत मूल्यवान है। आचरण ही इबादत है। क्योंकि अज़ादारी आध्यात्मिकता को बढ़ावा देती है और मनुष्य को मानवता के उच्चतम स्तर तक पहुंचने में मदद करती है। इमाम हुसैन (अ.स.) के लिए रोना और विलाप करना आंतरिक परिवर्तन का कारण है और इसके साथ ही मनुष्य की आध्यात्मिक पूर्णता भी है। यह मनुष्य में ईश्वर के प्रति पवित्रता और निकटता के लिए एक उदाहरण प्रदान करती है। उसी तरह मातम मनाने वाले भी दीन के साथ होते हैं जो आस्था की राह में मौत को खुशी और जुल्म करने वाले को लज्जा का कारण मानते हैं। इमाम हुसैन (अ.स.) की शहादत का ग़म वो ग़म है जिसने इंसान के वजूद को अंदर और बाहर से क्रान्तिकारी बना दिया है। लोग इससे जुड़े हुए नज़र आते हैं।

इस दु:ख का निर्माण मानवीय आधार पर किया गया है कि जहां धार्मिक, जातिगत और भाषाई संकीर्णता की अवधारणा नहीं बल्कि हर व्यक्ति के दिल की आवाज है, इसलिए दुनिया के महत्वपूर्ण क्रांतिकारी आंदोलनों में इसकी गूंज सुनाई देती है। ऐसे समय में जब भारत गुलामी की जंजीरों में था, महात्मा गांधी ने कहा था: "हुसैनी सिद्धांत का पालन करके मनुष्य को बचाया जा सकता है।" पंडित नेहरू कहते हैं, "इमाम हुसैन (अ.स.) की शहादत का एक सार्वभौमिक संदेश है।" "हीरोज उपासना" के लेखक कार्लाइल ने कहा कि "हुसैन की शहादत के मुद्दे पर जितना अधिक विचार किया जाएगा, उसकी उच्च मांगें उतनी ही अधिक सामने आएंगी।" डॉ राजेंद्र प्रसाद बेदी ने कहा कि इमाम हुसैन का बलिदान किसी एक राज्य या राष्ट्र के लिए सीमित नहीं है बल्कि यह मानव जाति की महान विरासत है। प्रसिद्ध बंगाली लेखक रवींद्रनाथ टैगोर ने कहा: "सच्चाई और न्याय को जीवित रखने के लिए सैनिकों और हथियारों की आवश्यकता नहीं है। बलिदान करके विजय प्राप्त की जा सकती है, जैसे इमाम हुसैन ने कर्बला में बलिदान दिया।" इमाम हुसैन मानवता के नेता हैं । "

अज़ादारी का अर्थ है उत्पीड़ितों के साथ भावनाओं के बंधन को मजबूत करना जो एक महान क्रांति कर रहे हैं और उत्पीड़क के खिलाफ विरोध कर रहे हैं। शहीदों के लिए रोना और अज़ादारी करना उनके साथ कर्बला के युद्ध के मैदान में भाग लेने के समान है। लक्ष्यों और उद्देश्यों की सुरक्षा के लिए शर्तें प्रदान की जाती हैं। शहीदों का दुःख और विशेष रूप से इमाम हुसैन (अ) का दुःख कर्बला की महान घटना को कायम रखने का एक साधन है।

Friday 6 August 2021

शादी ब्याह और हमारा समाज

 


मौलाना सैयद रज़ी जैदी फ़ांदेड़वी दिल्ली द्वारा लिखित


 विवाह एक प्राकृतिक प्रक्रिया है जो हर धर्म, राष्ट्र और मानव जाति में पाई जाती है। इस्लामी दृष्टिकोण से, शादी बुराई को मना करती है और पवित्र पैगंबर की सुन्नत है। इस प्रक्रिया का महत्व, जिसका उल्लेख कई विद्वानों और बुद्धिजीवियों ने किया है, शरीयत द्वारा समाज के लिए बहुत आसान बना दिया गया है, लेकिन समाज ने इसे इतना सख्त बना दिया है कि गरीब लड़कियों और लड़कों की शादी न केवल मुश्किल हो गई है बल्कि बहुत कठिन हो गई है। जिससे दुनिया में सामाजिक अशांति और मानसिक बीमारियां तेजी से बढ़ रही हैं। इसकी जिम्मेदारी समाज के हर उस सदस्य की है जो अपने विवाह में रस्मों और कर्तव्यों की आड़ में पैसा बर्बाद कर रहा है। यह प्रक्रिया पूरे जोश के साथ चल रही है। शादी मे फिजूलखर्ची से अपने धन की फिजूलखर्ची से हम अच्छी तरह वाकिफ हैं। हमेशा की तरह दुनिया में फिर से महंगाई की गूँज सुनाई दे रही है। शादी की रस्मों के नाम पर लोग समाज में कई तरह की परेशानियां पैदा कर रहे हैं। इस्लाम ऐसे मौकों पर खुशियों की मनाही नहीं करता है, लेकिन शादी के बाद लड़के द्वारा वलीमे की व्यवस्था शरिया-अनुपालन में खुशी की अभिव्यक्ति है। समाज मे लोग अन्य रस्मो की तरह शादी ब्याह मे भी सीमा का लांघ जाते है और उन्हे एहसास तक नही होता कि उन्होंने समाज में किस बीमारी की नींव रखी है।


हमारे देश में यह सिलसिला रिश्ते की शुरुआत से शुरू होकर शादी तक चलता है जिसमें लाखों गहने और महंगे कपड़े उपहार के रूप में दिए जाते हैं। इसे एक समारोह भी कहा जा सकता है। क्योंकि इस तरह के समारोह में बड़ी मात्रा में पैसा खर्च किया जाता है। मध्यम वर्ग की लड़की या लड़के से शादी करने के लिए इस्तेमाल किया जा सकता है। लोगों ने सगाई से लेकर शादी तक के अंतराल को सिरदर्द बना दिया है। इस बीच के समय में, पार्टियां एक-दूसरे को विभिन्न त्योहारों पर मूल्यवान उपहारों से पुरस्कृत करती हैं। जिसके पास यह नहीं है वह अपने बच्चों की शादी करने की भी हिम्मत नहीं करता है। अब तक, वह कभी नहीं सोचता शादी में व्यर्थ पैसा खर्च करने वाले सोचते हैं कि एक गरीब व्यक्ति जो अपने बच्चे की शादी के बारे में सोचने में असमर्थ है। यह बीमारी कहां से आई? यह वह बीमारी है जिसके बीज एक अमीर आदमी ने शादी में बोया था, जिसका खामियाजा समाज में रहने वाले लोगों को भुगतना पड़ रहा है।शादी से कुछ दिन पहले ही बड़ी संख्या में मेहमानों का आना शुरू हो जाता है। मेहमानों को तरह-तरह के महंगे व्यंजन परोसे जाते हैं, आतिशबाजी की भी व्यवस्था की जाती है।


बरात में देश भर से हजारों मेहमान शामिल होते हैं और लड़कियों द्वारा हजारों मेहमानों को आमंत्रित किया जाता है और उनके लिए बकरा, मछली और अन्य महंगे व्यंजन तैयार किए जाते हैं। बस इस डर से कि लड़की के ससुराल वाले उसका उपहास न करें, लड़के को एक महंगी मोटरसाइकिल या कार और आभूषण और अन्य उपहारों से पुरस्कृत किया जाता है। लगभग 25 से 30 प्रतिशत भोजन फालतू है। कई दिनों तक इसका विज्ञापन किया जाता है, और फिर शादी में शामिल होने वाले मेहमानों और क्षेत्र के लोगों को इसे अलविदा कहने की उम्मीद है। उन्होंने अच्छी शादी की, उनका दिल खुश था, लेकिन समाज के पिता से पता करें कि कर्ज के रूप में इस बीमारी से पीड़ित शादी के बाद कई सालों तक उसका दर्द सहन किया। कई मध्यम वर्ग के लोग समाज की इस झूठी परंपरा के शिकार हो रहे हैं। उन्हें अपनी इच्छा के विरुद्ध ऐसा करने के लिए मजबूर किया जाता है। लोगों के जीवन को इस झूठी महिमा के लिए बलिदान किया जा रहा है। बच्चों की शादी के लिए जीवन भर की बचत नाकाफी साबित हो रही है। ब्याज वाले कर्ज लेकर शादियां हो रही हैं। समाज में यह दिखावटी माहौल कई मजबूर माता-पिता को आग लगा रहा है। समाज में बुराई पैदा कर रहा है। कई शादियां इनके कारण रुकी हुई हैं फिजूल खर्च, झूठा अहंकार और संस्कार उन्हें खिलाओ। कुरान कहता है: जब उन्हें पवित्रता अपनाने के लिए कहा जाता है, तो झूठा सम्मान उन्हें ऐसा करने से रोकता है (सूरत अल-बकराह: 206)। वे जो कहते हैं उससे दुखी न हों। निश्चित रूप से, सभी सम्मान अल्लाह के हैं वह सब सुनने वाला, जानने वाला है (सूरह यूनुस, पद 65) हमें जश्न मनाना चाहिए, लेकिन हमें सावधान रहना चाहिए कि हम सीमा को पार न करें। संयम का मार्ग अपनाया जाना चाहिए। इस्लाम भी संयम सिखाता है। 


खाओ, पियो, और फालतू खर्त न करो निसंदेह वह फ़ालतु खर्च करने वालो को पसंद नहीं करता। (सूरत अल-अराफः 31) विवाह में फिजूलखर्ची के स्थान पर बच्चों को अच्छी तरह प्रशिक्षित किया जाना चाहिए। बाहरी आभूषणों के बजाय उन्हें शिक्षा और प्रशिक्षण के आभूषणों से अलंकृत किया जाना चाहिए। दहेज के बजाय, संपत्ति के वितरण में न्याय और निष्पक्षता का प्रयोग किया जाना चाहिए (विरासत)। उच्च कीमतों के इस समय में यह प्रक्रिया समाज के लिए एक बड़ी राहत हो सकती है। जिससे समाज मे तवाज़न बरक़रार हो जाएगा और लोगो की परेशानीया कम हो जाएगी और फरि समाज में अविवाहित लोगों को  शादी करने का अवसर दिया जाएगा।। हम अल्लाह से दुआ करते हैं कि वे उन सभी लोगों की मदद करें जो संयम का अभ्यास करते हैं ताकि समाज की बुराइयों को दूर किया जा सके। आमीन